عربى زبان كيوں؟
عربی ہر مسلمان کی فطرت کا حصہ
مسلمان کو عربی زبان آئے نہ آئے، عربی زبان مسلمان تک خود آجاتی ہے!! ذرا غور کریں، پیدائش کے بعد پہلی آواز جو اسکے کانوں سے ٹکراتی ہے وہ عربی زبان میں اذان کے کلمات ہی تو ہیں۔ اوراس دنیا سے جاتے ہوئے جو آخری کلمات اس کی موجودگی میں ادا ہوتے ہیں، وہ بھی عربی کلمات ہیں۔ بلکہ انہیں عربی کلمات کے ساتھ اسے قبر میں اتارا جاتا ہے۔ صبح بیدار ہوتے وقت اور رات کو سوتے وقت ادا ہونے اذكار اصل ميں عربی کلمات اور عبارتیں ہیں۔ عربی کے الفاظ تو ہمارے نام، یا ناموں کا سابقہ اور لاحقہ ہوتے ہیں۔ ہمارے ذکر واذکار، دعائیں،تلاوتیں، لسانی عبادتیں، سب عربی ہی تو ہیں۔ سو صبح سے شام، اور پیدائش سے موت، اور رکن اول کلمہ سے رکن خامس حج تک عربی ہماری فطرت ، شخصیت اور معمولات کا جزو ہے، ایسا جز جو الگ ہوسکتا ہے نہ كيا جاسكتا ہے۔ ہماری زبان ، اردوسميت تمام وہ زبانیں جو مسلمان بولتے ہیں، ان میں عربی الفاظ كى بڑی تعداد داخل ہوچكى ہے۔
عربی کی اہمیت
یہ کہنا کہ عربی زبان ہمیں قرآن سے جوڑتی ہے، یا یہ کہنا کہ قرآن سے ناطہ جوڑنے کیلئے عربی جاننا ضروری ہے، دو الگ الگ باتیں نہیں ہیں۔ بطور مسلمان عربی زبان ہمارے لئے کتنی ضروری ہے، اس كيلئے تمام دلائل کوچھوڑیں، اس کا اندازہ صرف اس بات سے لگا لیں کہ ہمارے دشمنوں کو ہماری قوت ہمارے قرآن سے تعلق میں ہی نظر آتی ہے اور اسی تعلق کو کمزور کرنے کیلئے وہ پہلا وار عربی زبان پر کرتا ہے۔ ترکی کی مثال لیں، جہاں ترک زبان میں سے عربی الفاظ کو ہی ختم کردیا گیا اور کئی دہائیوں کیلئے اس قوم کو اسلام سے دور كرنے كى ناكام سازش كى گئى۔
دستور میں عربی زبان کی اہمیت
یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک اسلامی ریاست ہو اور وہاں عربی زبان کی حیثیت مسلمہ نہ ہویا کوئی اس کی اہمیت سے انکار کرے۔ معاشی فوائد تو آنی جانی چیز ہے جو سیاسی یا جغرافیائی تبدیلیوں سے متاثر ہوسکتی ہے لیکن عربی زبان کے دینی فوائد تو ہر عہد اور ہر وقت کیلئے مسلمہ اور حتمی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کو قائم کرنے والی دور اندیش قیادت نے دستور میں عربی زبان کی اہمیت تسلیم کرتے ہوئے حکومت پاکستان کو اس کام کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ اس دستور كے مطابق عربى زبان كا فروغ حكومت پاكستان كى آئينى ذمہ دارى ہے۔
پاکستان میں عربی زبان کا المیہ
دستور كى اس ضمانت كے بعد عربى زبان كے ساتھ پاكستان كى ہر حكومت كا معاملہ اس مسلمان كى طرح رہا ہے جس نے كلمہ طيبہ توپڑھ ليا ہے ليكن عمل كے حوالے سے صفر ہے۔ افسوس کہ کسی بھی حکومت نے اس مقصد کیلئے کوئی قابل ذکر کام نہیں کیا۔ ہاں، صدر ضیاء الحق کے دور میں آٹھویں ترمیم کے ذریعہ عربی زبان کو مڈل کلاسز میں لازمی مضمون کا درجہ تو ملا، لیکن اسے آنے والی حکومتوں نے تدیجا ختم یا غیر موثر کردیا۔ عربی زبان سے حکومت پاکستان کی غفلت کا یہ عالم ہے کہ عالم عرب میں ہندوستان کے چھ سے زائد اخبارات اور میگزین شائع ہوتے ہیں ، لیکن اس کے مقابل حکومت پاکستان کے موقف کو پہنچانے کیلئے کوئی ایک بھی سرکاری جریدہ شائع نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ دو تین عرب ممالک کے علاوہ اکثر عرب پاکستان کی نسبت ہندوستان کے موقف کو زیادہ سمجھتے ہیں۔ ہم عربى زبان كو نظر اندازكركے نہ صرف مذہبى اور ملى سطح پر بہت نقصانات اٹها رہے ہيں وہيں تجارتى، اقتصادى اورسفارتى سطح پر ان فوائد كوسميٹنے سے محروم ہيں جن سے غير مسلم ممالك محض عربى زبان كے حوالے سے محنت اور منصوبہ بندى كركے لطف اندوز ہو رہے ہيں۔