اللہ تعالی کی توفیق سے!!
معہد اللغة العربیة کے نظام تعلیم کی چند نمایاں خصوصیات

عربی زبان کی خدمت… ہمار ا مشن، عباری عبادت

معہد اللغة العربیة پاکستان میں عربی زبان کی ترقى اور نشر واشاعت اور اس ضمن ميں تحقيقي، تدريسى اور صحافتى ميدان ميں سرگرم عمل منفرد ادارہ ہے۔ ادارے كا نام ہی اسکا پیغام اور اسکی شناخت ہے۔ اسکی خدمات کی اپنی منفرد تاریخ اور پہچان ہے اوربفضلہ تعالی یہ کام بتدريج ترقی کی شاہراہ پر گامرن ہے۔ وطن عزيز اور عالم عرب ميں انسٹی ٹیوٹ کے بانی جناب مولانا محمد بشیر کی پہچان عربی زبان کے ایک بے لوث سپاہی کی سی ہے۔ يہى وجہ ہے كہ ديار حرمين كے علما كى جانب سے آپ كوہ”شيخ العربيہ فى باكستان“ كا لقب ديا گيا ہے۔

عربی زبا ن کیلئے کثیر الجہتی خدمات

عربی زبان کی تدریس کیلئے جدید انداز میں کتابوں کی تالیف ہو یا مدارس اور کالجز کے عربی اساتذہ کی تربيت، وطن عزیز میں رائج عربی زبان کے نصاب میں مجرمانہ غفلت کے تعاقب کا مسئلہ ہو یا سکولوں میں عربی زبان کے مضمون کی ارزانی کی سازش، پاکستان کے پاسپورٹ میں عربی الفاظ میں درجنوں غلطیوں کا انکشاف ہو یا سركارى نصاب ميں عربی كى کتابوں میں سینکڑوں غلطیوں پر احتجاج، ارباب اختیار کے دروازے پر دستک سے عدالت کی زنجیر ہلانے تک ہر جگہ انسٹیٹیوٹ کے بانی قرآن کی مظلوم زبان…عربی… کا مقدمہ لڑتے نظر آئیں گے۔

خوبصورت زبان کیلئے …خوب صورت انداز

معہد اللغة العربیة میں عربی زبان صدیوں پرانے اسٹائل سے ہٹ کر ایک منفرد، جدید ، دلچسپ اور رنگین انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ پڑھا لکھا طبقہ جو عربی زبان کو سیکھنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا، اس زبان میں مختصر مدت میں عبور حاصل کرتا نظر آتا ہے۔ جب ہم اس بات كا ايمان ركھتے ہيں كہ عربى زبان دنيا كى سب سے مقدس اور پيارى زبان ہے تو پھر اس زبان كا حسن وجمال پڑھتے پڑھاتے ہوئے بھى نظر آنا چاہئے۔ اور ہاں، تہذیبوں کی موجودہ جنگ میں اگر استعمار اپنی زبان کے ذریعے ہم پر فرنگی مغربی ثقافت مسلط کرسکتا ہے تو ہم اس پاک سرزمین میں قرآن کی زبان …عربی زبان …کے ذریعے خالص اسلامی عربی ثقافت کا احیا کیوں نہیں کرسکتے؟!!

عربی زبان کی تعلیم کا اولین مقصد: قرآن وسنت کا فہم

معہد اللغة العربیة کا اولین ہدف یہ ہے کہ عربی زبان کے ذریعے عوام الناس کو قرآن کریم کی تعلیمات سے براہ راست روشناس كرايا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ اثنائے تدریس قرآن کریم کی آیات کوسمجھانے کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے۔ زبان کی مختلف اکائیوں کی تدریس کے دوران قرآنی آیات سے مثالیں دی جاتی ہیں۔نیز احادیث نبویہ کا ایک بڑا حصہ بھی مختلف پروگراموں میں نصاب کا حصہ ہوتا ہے۔قرآن كريم كو آسان ترين انداز ميں سكھانے كا نظريہ اور عملى طريقہ متعارف كرانا اس ادارے كيلئے وہ عظيم اعزاز ہے جس پر ہم اللہ تعالى كا جتنا شكر ادا كريں كم ہے۔

سپوكن اور قرآنى عربى كا زبردست امتزاج

”قرآنى عربى“ اور ”موجودہ عربى“ اور ”قرآنى گرامر“ ايسى اصطلاحات نے عربى زبان كے فروغ كو بہت نقصان پہنچايا ہے۔ اسكى تفصيل ايك الگ موضوع ہے۔ الحمدللہ، اس ادارے كى بڑى كاميابيوں ميں سے ايك كاميابى يہ ہے كہ اس نے جديد تحقيق كے بعد فہم قرآن كو سپوكن عربى كے ساتھ منسلك كيا ہے وہيں سپوكن عربى ميں معيار كيلئے قرآن كريم كے صحيح استعمال كے كامياب طريقہ كو متعارف كروايا ہے اور اس وقت رائج اس ظالمانہ تقسيم كو ختم كرنے كى كوشش كى ہے جس كى وجہ سے قرآن كريم كى زبان كا تصور ايك قديم اور غير مستعمل زبان كے طور پرابھرتا ہے۔

زبان کے ہر پہلو پر متوازن توجہ

برصغیر میں عربی زبان اس لحاظ سے بدقسمت رہی کہ اسکا حسنِ بے مثال قواعد (گرامر) کی افراط نے تباہ کرڈالا اور یہ اپنے چاہنے والوں كيلئے محض گردانوں اور قواعد وقوانین کی زبان بن کر رہ گئی۔ خصوصا اسکے عملی استعمال کا تو تصور ہی ختم ہوگیا۔ نتیجة عوام الناس میں اسکی محبت اور رغبت کے باوجود یہ ان کيلئے ایک معمہ بن کر رہ گئی۔انسٹیٹیوٹ کے مرتب نصاب اور اختیار کردہ طریق تدریس میں اولین نکتہ زبان کے ہر پہلو پر اعتدال کے ساتھ توجہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ طالب علم میں زبان کی چار معروف مہارتوں(لكھنے، پڑھنے ، بولنے اور سننے)كے ساتھ قواعد، اصوات اور لہجہ پر بھى خصوصى توجہ دی جاتی ہے۔

عالمی سطح پر جدید ترین انداز اور کتابوں کا انتخاب

عصر حاضر میں تدریسی میدان میں تحقیق بام عروج پر ہے۔ عالمی سطح پر تدریسِ لغات پر حیرت انگیز پیشرفت ہوئی ہے۔ عربی زبان کے ماہرین بھی اس سلسلے میں کسی زبان سے پیچھے نہیں۔ عالمی سطح پر نت نئے انداز، دلفريب طريقے اور نئے سلسلے متعارف ہورہے ہیں۔ انسٹیٹیوٹ نہ صرف ایسے اداروں سے براہ راست رابطہ میں رہتا ہے بلکہ عالم عرب میں متعارف نئے سلسلوں کو اپنے نصاب میں شامل کرتا ہے۔ اس وقت انسٹیٹیوٹ ميں منعقد ہونے والےمختلف پروگراموں میں سعودی عرب، مصر، کویت اور متحدہ عرب امارات کی جامعات اور اداروں کی کتابیں نصاب کا حصہ ہیں۔

ایک رجسٹر ڈ اور تسلیم شدہ ادارہ

معہد اللغة العربیة حکومت پاکستان کے ہاں باقاعدہ رجسٹرڈ تعلیمی ادارہ ہے اور تمام قوانين وضوابط كى مكمل پابندى كرتا ہے۔ عربی زبان کی خدمات کے ضمن ميں اپنی منفرد تاریخ اور بے مثال معیار کی بنا پر وزرات تعلیم، وزرات خارجہ، عرب سفارت خانوں، غير سركارى تنظيموں، کمپنیز کے علاوہ اندرون وبیرون ملک معروف تعلیمی اداروں میں اسکے سرٹیفیکیٹس کو اہمیت دی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسٹیٹیوٹ کے کورسز میں شریک بڑى تعداد کا تعلق مختلف سفارت خانوں، اقوام متحدہ، ملٹی نیشنل کمپنیوں ،این جی اوز اور نامور یونیورسٹیزسے ہوتا ہے۔

باصلاحيت اور مخلص ماہرین تعلیم

اس ادارے كى كاميابى كے مركزى اسباب ميں سے مخلص اور باصلاحيت اساتذہ كى ايك ايسى ٹيم ہے جن کا اصل ميدان ہى عربی زبان کی تدیس ہے اور سالہا سال کا تجربہ انکا سرمایہ ہے۔ يہاں اساتذه كى نظر ميں عربى زبان كى تدريس ايك فن ہے جس ميں نكھار كيلئے غور وفكر كے ساتھ ساتھ رياضت ،جدت اور تنوع بہت ضرورى ہے۔ اساتذہ كى نظر ميں عربى زبان سيكھنے كيلئے آنے والا ہر شخص ان كيلئے اللہ كى جانب سے بيك وقت ايك نعمت اور ايك امتحان ہے ۔يہى وجہ ہے كہ تمام كلاسز ميں اساتذہ انفرادى طور پر بھى ہر طالب علم كو خصوصى توجہ اور شفقت سے نوازتے ہيں۔ تمام اساتذہ اپنے تجربات سے باہمى استفادہ كيلئے تجربات کا باقاعدہ تبادلہ کرتے ہیں تاکہ نصاب سے طريقہ تدريس تك ہر چيز كو بہتر سے بہتر بنايا جاسكے۔

وسیع قومی اور ملی خدمات

انسٹیٹیوٹ کے فارغ التحصیل طلبہ وطالبات علمی میدانوں اعلی علمی وتعلیمی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔انسٹیٹیوٹ کے بانی جناب مولانا محمد بشیر اور انکی تيار كردہ ٹيم كى تالیف کردہ درجنوں کتابوں سے ملک بھر کے کالجز، یونیورسٹیز، اسکولز اور مدارس کے طلبہ وطالبات مستفید ہورہے ہیں۔ اس وقت پاكستان كا شايد ہى كوئى شہر ہو جہاں اس ادارے كى تيار كردہ كتابيں عربى زبان كى تدريس كيلئے شامل نصاب نہ ہوں۔ والحمد للہ علی ذلک۔